پیشے نہیں ہماری سوچ حقیر ہے

جب یہ کہا جاتا ہے کہ معاشرے کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے” تو اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہوتا کہ معاشرے کے ہر فرد کے پاس اعلی تعلیمی ڈگری ہونی چاہیے اور نہ ہی ایسا ہو پانا ممکن ہے۔ بلکہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں تعمیری اور مثبت سوچ کی قدر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ ہماری سوچ ہی ہوتی ہے جس پر عمل کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ اور یہ ہمارا طرزِ عمل ہی ہے جو ہماری معاشرتی زندگی کے تمام پہلووں میں معنی خیز حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی سوچ، عمل اور ہماری زندگی کا باہم وہی تعلق ہے۔
معزز قائرین یہ تمام بات میں نے ہمارے معاشرے میں “بعض پیشوں کو حقیر” سمجھنے کی خطرناک سوچ کے تناظر میں عرض کی ہے۔ اس سوچ کی بنیاد پر پیدا ہونے والے طرزِ عمل کی وجہ سے ہمارامعاشرہ انتہائی گھمبیر معاشی صورتحال سے دو چار یے ۔ روز بروز غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

معاشرے کی اکثریت جس کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے ہے میں یہ سوچ بدرجہا اتم پائی جاتی ہے جب کہ اکثر خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار نے والوں کے اذہان کو بھی اس سوچ نے امربیل کی مانند جکڑ رکھا ہے اور وہ اس سوچ کو اپنے تن من کا لہو پلا کر اپنے اندر پال رہے ہیں۔ نجانے یہ عجیب اور بیمار سوچ ہمارے ہاں کہاں سے جنمی کہ ہم حلال رزق کمانے کے لیے کوشاں چند پیشوں سے منسلک عوام کو حقیر سمجھتے ہیں جبکہ بھیک دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ بھی بہت سارے دیگر غلط مذہبی عقائد کی طرح یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ کسی کو بھیک دینے سے ہمارے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، شاید کچھ گناہ معاف ہوتے بھی ہوں۔ مگر یقین کیجیے کہ کسی بھیک دینے والے کو یہ نوید نہیں سنائی گئی جو ایک محنت کش کو سنائی گئی ہے جو رزق حلال کمانے کے لیے محنت کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو آبلہ پا کر لیتا ہے اور مالک سے “اپنا دوست” کہلوانے کا سرٹیفیکیٹ پا لیتا ہے۔ کہیں بھی بھیک دینے کو عبادت نہیں کہا گیا مگر ہم سب جانتے ہیں کہ “حصولِ رزقِ حلال عین عبادت ہے” ۔ ہم محض اپنے گناہ بخشوانے کے لیے پیشوں کو حقیر اور بھیک دینے میں فخر محسوس کرنے کی سوچ کی وجہ سے لوگوں کو “اللہ کا دوست بننے” سے محروم کر رہے ہیں۔

اس منفی سوچ کو ختم کر کے ہمیں “پیشوں کو حقیر سمجھنے” کے کینسر سے نجات پانی ہو گی تبھی ہمارا معاشرہ معاشی طور پر پھل پھول سکے گا اگر اس کو جلدی جڑ سے نہ ختم کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم مجموعی طور پر “بھکاری معاشرہ” بن چکے ہوں گے۔ آئیے آج اس سلسلے میں ایجوکیٹ کرنے کے لیے آپ سب کی توجہ انتہائی اہم نکتے کی طرف مبذول کرواتا ہوں جو آج ہی “ایک منظر” دیکھ کر میرے ذہن میں آیا۔

خدا” جو کہ اس کائنات کا خالق ہے۔ وہ سب سے بہتر جانتا ہے کہ اس کی تخلیق یعنی انسان بہترین زندگی کیسے گزار سکتے ہیں۔ چنانچہ اس نے انسان کو بہترین زندگی گزارنے کے گُر سکھانے کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے۔ اب تمام انبیاء کی سوانحات کو اٹھا کر دیکھیے اور انھوں نے حصولِ روز گار کے لیے جو جو ذرائع معاش اپنائے ان پر غور کیجیے۔۔ کوئی درزی ہے، تو کوئی لوہار، اور کوئی سالوں پر محیط عرصے کے لیے بکریاں چراتا نظر آئے گا۔۔۔۔ اب آ جائیے آخری پیغمبر ہم سب کے آقا اور اللہ تعالی کے محبوب کی سوانح مبارک کی طرف تو جناب باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ پاک کے محبوب ہونے کے درجہ پر فائز ہیں مگر اللہ نے صرف اور صرف ہماری راہنمائی کی خاطر اپنے محبوب سے بھی بکریاں چروائیں، کپڑے سلوائے، کسی کے لیے سیلز مینشپ کی ملازمت بھی کروائی، باورچی کا کام بھی کروایا، جوتے سلائی کروا کر بھی ہمیں دکھایا کہ لوگو یہ سب ذرائع معاش ہیں ان کو اپناو گے تو حلال رزق تو پاو گے ہی مگر میری نظر میں بھی قدر و منزلت پاو گے۔۔

مگر آج ہم نے اپنے آقا سمیت تمام انبیاء کی زندگیوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے نہ جانے کہاں سے یہ گھٹیا سوچ اپنا لی ہے اور نتیجتاً غربت جیسی ذلت کے گڑھے میں گر چکے ہیں۔ میری آپ سب سے درخواست ہے کہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کو جن میں اس بیمار سوچ کا مرض موجود ہے ان کو اس ایک نکتے کے بارے میں “ایجوکیٹ” کر کے انہیں اس مرض سے نجات دلانے کی کوشش کیجیے۔ اس سے نہ صرف ان کی اپنی زندگیاں آسان ہوں گی بلکہ معاشرے کو بھی معاشی ترقی کی آکسیجن ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ تہیہ کیجیے کہ آپ بھی مختلف پیشے جن کو حقیر سمجھا جاتا ہے ان سے منسلک لوگوں کی حتی الوسع حوصلہ افزائی کریں گے اور ان کے اندر کسی بھی قسم کا احساسِ کمتری پیدا ہونے سے روکیں گے۔ ان کو ویسا ہی مان سمان دیں گے جو آپ اپنے لیے دوسروں سے چاہتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *