برصغیر پاک و ہند میں جو خاندانی نظام نافذ العمل ہے اس کی بنیاد اشتراک پر ہے. کبھی کبھی یہ اشتراک اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ اس میں افراد کا انفرادی تشخص مسخ ہو جاتا ہے. اس نظام کے تحت ماں اپنے فرائض کی ادائیگی میں اس حد تک دب جاتی ہے کہ اس کی انفرادی شخصیت کا وجود ہی برقرار نہیں رہتا. اسی طرح جو خاندان کا کفیل یعنی کمانے والا ہوتا ہے اس کی ذات بھی اشتراک کے بوجھ تلے دب جاتی ہے
اس نظام میں ماں کو ہمیشہ بچوں کے ریفرنس اور پس منظر سے ہی دیکھا جاتا ہے. یعنی جب بھی ماں کا خاندان کے ہس منظر میں ذکر ہو اس کے ساتھ اولاد کا تصور لازم سمجھا جاتا ہے. اگر ہم ماں کے کسی اثاثے کی بات کریں کہ اس کے پاس زندگی میں اپنا ذاتی کیا ہے؟ تو اس کا جواب ملتا ہے ماں کے پاس اس کی اولاد ہے
اگر ہم اسلام کے تصورِ وراثت کو دیکھیں تو وہ خاندان کے سربراہ فرد کی وفات کی صورت میں وراثت کی تقسیم کے وقت اس ماں کا حصہ بالکل الگ اور انفرادی حیثیت سے طے کرتا ہے. حالانکہ اشتراکی نظام کی نظر سے دیکھا جائے تو اصولاََ جو کچھ اولاد کا ہوتا ہے وہ سب ماں کا ہی تو ہوتا ہے. لیکن نہیں اسلام وراثت کی تقسیم میں ماں کو ایک بالکل الگ وجود اور الگ انسان کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور اس کا جدا حصہ مقرر کرتا ہے.
بالکل یہی حال جائیداد میں بہن کے حصے کا بھی ہے. ہمارے اشتراکی خاندانی نظام میں تو بہن کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے بھائی قرار پاتے ہیں. لیکن اسلام ان کو بھی ایک الگ حقیقی وجود مانتے ہوئے ان کی انفرادی حیثیت کا احترام کرتے ہوئے ان کا حصہ مقرر و مختص کرنے کا حکم دیتا ہے
اس سے ہمیں جو درس ملتا ہے وہ یہ ہے کہ بے شک ہم جذباتی طور پر جتنے مرضی کسی سے منسلک ہوں, یا کوئی ہم سے منسلک ہو مگر دنیا میں ایسا کوئی تعلق نہیں ہے جو کسی انسان کی الگ, انفرادی پہچان اور اس کے اپنے ذاتی تشخص کو مسخ کرے یا اس کا متبادل و نعم البدل ثابت ہو سکے. اگر ایسا ممکن ہوتا تو خدا جائداد میں بیوہ کا حصہ مقرر کرنے کی بجائے اسے اولاد کی ذمہ داری قرار دے دیتا
چنانچہ ہمیں ہر صورت نہ صرف اپنا انفردی تشخص برقرار رکھنے کی سعی کرنی چاہیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی اسے ضروری خیال کرتے ہوئے ان کے انفرادی وجود کو پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے چاہیں۔ اس سے ہمارا معاشرہ دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے گا۔