زندگی گزارنے کے لیے ہر انسان کئی ایک نظریات کی پیروی کرتا ہے۔ نظریات دراصل وہ راستے ہوتے ہیں جن پر چل کر ایک انسان کسی خاص منزل کے حصول کا متمنی ہوتا ہے۔ جب ایک ہی نظریے کو انسان بہت دیر تک اپنائے رکھتا ہے تو وہ نظریہ اس کی عادات اور جسمانی اعضاء کی طرح اس کی شخصیت اور ذات کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کسی شخص کو اس نظریے سے دستبردار یا اس میں تبدیلی لانے کے لیے اکسایا جائے تو اس کا ردعمل بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کسی انسان کا اپنی عادت یا اپنی ذاتی ملکیت کو چھوڑتے ہوئے ہوتا ہے۔ یعنی یہ میرا اپنا ہے۔ میں اسے نہیں چھوڑ سکتا۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اسے چھوڑ دوں۔ نہیں یہ ممکن نہیں۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ واضح اور اٹل ہے کہ بعض نظریات دین اور دنیا دونوں کے لیے گمراہ کُن ہونے کے ساتھ ساتھ تباہ کن بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ مگر اوپر بیان کی گئی وجہ کی موجودگی میں ہم چاہ کر بھی غلط نظریات پر کاربند لوگوں کو بدل نہیں پاتے۔۔ اور اس وقت ہمارے اردگرد موجود پیچیدہ ترین مسائل میں سے ایک مسئلہ یہی ہے کہ بہت سے لوگ ہماری آنکھوں کے سامنے، تحقیق سے خالی اور محض پراپگینڈہ کی بنیاد پر قائم نظریات کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنا کر دینی گمراہی اور دنیاوی ناکامیوں کے اندھیروں میں گُم ہوتے جا رہے ہیں اور ہماری لاکھ کوشش کے باوجود وہ ٹَس سے مَس نہیں ہوتے۔
ایسا کیوں ہے؟
جب کہ ہماری نیت بھی ٹھیک ہوتی ہے اور ہم خالصتاََ ان کی بھلائی کی خاطر ان کی رائے بدلنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ میری دانست میں اس کی ایک بڑی اہم اور بنیادی وجہ ہمارا “طریقہ” ہے۔ یعنی ہم لوگوں کے نظریات بدلنے کے لیے جو طریقہ اپناتے ہوئے ہیں وہ موزوں نہیں ہے. اپنے نظریات کے متعلق لوگوں کے جذبات، جو اوپر بیان کیے گئے ہیں ،کو دیکھتے ہوئے آئیے اپنے طریقہء کار اور اس میں پائی جانے والی قباحتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے بڑی اور پہلی غلطی جس کے ہم مرتکب ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اپنی بات کا آغاز ہی سامنے موجود شخص کو “غلط” کہہ کر کرتے ہیں اور اپنا پورا زور غلط ثابت کرنے ہر لگا دیتے ہیں۔۔ پھر دوسری بڑی غلطی جو ہم سے سرزد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اگلے شخص سے نہ صرف توقع بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے نظریے اور سوچ سے دست بردار ہو کر ہمارے بیان کردہ نظریے کو درست مان لے اور اسے اپنا لے۔۔۔ اب بتائیے کہ کوئی شخص اپنی برسوں پرانی عادت کو محض آپ کے کہنے پر ترک کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔۔ یا کوئی شخص جس کا نظریہ زندگی بھر اس کا اوڑھنا بچھونا رہا ہو وہ آپ کے کہنے پر اپنے پسندیدہ ترین لباس کو اتار کر پھینک دے گا؟ یعنی دوسرے الفاظ میں آپ چاہتے ہیں کہ کچھ دیر پہلے وہ شخص جس کپڑے کو دستار کی جگہ باندھے ہوئے تھا وہ اسے اب پاوں تلے روند ڈالے؟ نہیں۔۔ وہ ایسا کبھی نہیں کرے گا۔۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔۔ وہ کیا، آپ میں یا کوئی بھی نہیں ایسا کر سکتا۔۔۔
تیسری خطا جس کا ہم ارتکاب کرتے ہیں وہ یہ کہ ہم کسی شخص کے پاس موجود نظریے کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں حالانکہ اکثر و بیشتر اسے صرف ہلکی تراش خراش کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ جڑ سے اکھاڑنے کی یہ کوشش اسے ہم سے بد ظن کر دیتی ہے اور وہ ہماری بات کے سامنے اپنے لباس یعنی نظریے کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئےشدید قسم کق رد عمل دے ڈالتا ہے۔۔ اور ہم اسے کوڑھ، جاہل اور ڈھیٹ جیسے القابات سے نواز کربیٹھ رہتے ہیں۔۔
ایک اور مثال سے سمجھیے
کیا آپ نے کسی رنگ گورا کرنے والی کریم ،شیمپو یا دوسری کسی چیز کی ایسی ایڈورٹائزمنٹ دیکھی ہے جس میں گاہک کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہو کہ اگر اس نے ہماری پراڈکٹ استعمال نہ کی تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔۔ اس کی زندگی رُک جائے گی۔۔ وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا زندگی میں۔۔۔ بلکہ اس کی بجائے کمپنیاں اپنی پراڈکٹ کے فوائد کی ایسی “شدت” سے تشہیر اور ہرچار کرتی ہیں کہ گاہک ان کی چیز کو اپنے لیے خود ہی ناگزیر تصور کرنے لگتا ہے۔۔۔ بالکل یہی طریقہ ہمیں بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔۔ کہ ایسے لوگ جن کے نظریات ہم بدلنا چاہتے ہیں ان کے سامنے درست نظریات کی تشہیری مہم چلائی جائے، وہ بھی ان کو یہ باور کروائے بغیر کہ آپ انہیں احساس دلانا چاہ رہے ہیں کہ وہ غلطی پر ہیں۔۔ بس ان کے سامنے اپنی بات ہر وقت، ہر فورم ہر جگہ پہ ہر مناسب انداز میں رکھتے جائیں۔۔ آپ دیکھیں گے کہ کچھ ہی وقت میں تبدیلی نظر آنی شروع ہو جائے گی۔۔ بس جو آپ کو معلوم ہے وہ کھول کھول کر بیان کرتے جائیں اور یہی منشائے ایزدی بھی ہے کہ آپ کسی کو غلط بول بول کر اس سے خود کو غلط تسلیم نہیں کروا سکتے۔۔۔ بلکہ اس کے سامنے سچ کا پرچار اس شدت سے کیجیے کہ اسے اپنے غلط کا ادراک ہو جائے۔۔۔ کہ ہماری اگر کچھ ذمہ داری ہے تو وہ ادراک اور شعور دینا ہے نہ کہ کچھ .منوانا
2 thoughts on “رائے یا نظریے میں تبدیلی”
ماشاءاللہ ❤️ سر جی
Allah bless you ❤️😘
بہت اعلی جناب