پاکستان میں بڑھتے ہوئے ریپ کیسز نے ملک میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے, جس میں یہ طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس بڑھتے ہوئے سماجی عارضے کا حل کیسے ممکن ہے؟ وہ کونسے اقدامات ہیں اور وہ کون سا لائحہ عمل ہے جس پر عمل پیرا ہو کر اس ناسور سے چھٹکارہ ممکن ہے؟ اس کے حل کے لیے علماء, سیاستدان, سماجی تنظیموں کے کارکنان, میڈیا اور عوام سمیت ہر مکتبہ فکر کے لوگ مختلف حل تجویز کر رہے ہیں. کچھ لوگوں کا خیال ہے کے اس کا حل شرعی سزا کے نفاذ میں ہے جب کہ ایک طبقہ اس مسئلے کے خاتمے کے لیے مجرم کی جنسی صلاحیت کے خاتمے کی سزا کو بہترین حل تجویز کر رہا ہے. المختصر یہ کہ ہر سطح پر اس مسئلہ کو لے کر بے چینی اور شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور عوام کا پر زور مطالبہ ہے کہ اس آگ پر جلد از جلد کسی مربوط حکمت عملی کے ذریعے اس طرح قابو پایا جائے کہ یہ مستقبل میں کبھی سر نہ اٹھا سکے. چونکہ یہ ایک سماجی انحراف, اقدار سے بغاوت اور معاشرتی قوانین کی سنگین خلاف ورزی پر مشتمل جرم ہے اس لیے اس کے مستقل تدارک کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کی” سماج” میں موجود جڑوں کو کاٹا جائے. اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ کسی بھی طرح کی قانون سازی اور سزا کا سلسلہ اس بات کی ضمانت نہیں بن سکتا کہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے کم سے کم ترین سطح پر آ جائے اور اس کے دوبارہ جنم لینے کے امکانات نا ہونے کے برابر رہ جائیں..
سماجیات کے ایک ادنی سے طالب علم ہونے کی حیثیت سے اپنے مشاہدے اور دانست کے مطابق اس کی سماجی وجوہات اور ان وجوہات کے خاتمے کا لائحہ عمل میرے نزدیک کچھ یوں ہے
:وجوہات
ہمارے یہاں ریپ کی سماجی وجوہات تلاش کرنے سے قبل ایک چھوٹا سا موازنہ کرنا ازحد ضروری ہے انڈین اور پاکستانی معاشرے کا موازنہ. جیسا کہ اس بات سے ہم سب آگاہ ہیں کہ انڈیا میں ریپ کیسز کی شرح دنیا میں سب سے بلند ہے اور انڈیا کو عرفأ عام میں ہمارے یہاں “ریپستان” بھی کہا جاتا ہے. اگر ہم ہندوستانی اور پاکستانی معاشرے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تو سلامی روایات کی پاسداری کے لاکھ دعویدار ہونے کے باوجود دونوں معاشروں میں مرد و عورت کے تقابل میں عورت ہمیں عملی طور پر مرد سے کمزور اور کمتر, جنسی بھوک مٹانے کا ذریعہ اور ناتواں جسم کی مالک ہونے جیسی صفات کا مرقع نظر آتی ہے. دونوں معاشروں کے مرد کی نفسیات عورت کے حوالے سے تقریباََ ایک سی ہے. اکثریت کے تخیل میں “لفظ” “عورت” کا ایک ہی مجسم موجود ہے جو کہ متذکرہ بالا خصوصیات پر مشتمل ہوتا ہے. اور یہی وہ تصور ہے عورت کا جو مرد کو ریپ کی کوشش کے لیے ابھارتا ہے. اس بات کا ثبوت ریپ کی “نفسیات” یا سائیکی میں موجود ہے. آپ دیکھیں کہ ہمیشہ تنہا یا سماجی طور پر کمزور عورت ہی ریپ کا شکار ہوتی ہے. یعنی ریپ کرنے والے کے ذہن اور نفسیات میں یہ بات نقش ہے کہ تنہا عورت اس سے ہر لحاظ سے کمزور ہے, اور وہ اس تنہائی کو اپنے لیے “موقع” تصور کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے. اگر آپ غور کریں تو ہر ریپ کیس میں آپ کو محرک بننے کی بنیادوی وجوہات یہی دونوں معلوم ہوں گی. یا تو عورت تنہا ہو گی. یا پھر وہ سماجی طور پر کسی نچلے درجے یا طبقے سے تعلق رکھتی ہو گی جو تنہائی سمیت ہر جگہ ہی کمزور خیال کی جاتی ہو گی
حل کیا ہے؟
کسی بھی مسئلے کی وجوہات تلاش کرنے کے بعد اس کا حل باآسانی سمجھ آ جاتا ہے اس پر عمل پیرا ہونا یا اس کا اطلاق مگر ضرور مشکل ہوا کرتا ہے. جیسا کہ اس مسئلے کی وجوہات ہم تلاش کر چکے ہیں تو آئیے اب اس کے حل کا طریقہ تجویز کرتے ہیں. اس کا حل ہے, مرد کے ذہن میں پہلے سے موجود عورت کے تشخص کو ہٹا کر ایک نیا تشخص اجاگر کرنا. یعنی مرد کے تصوراتی پردہ سکرین سے کمزور و ناتواں اور جنسی بھوک مٹانے کا ذریعہ بننے والی جو عورت کی تصویر ہے اس کی جگہ عورت کو معزز, سماجی رتبے کے لحاظ سے طاقتور اکائی کے طور پر اور گوشت پوست سے بنے جسم کی بجائے مرد کی طرح کی ہی ایک ذی روح اور ذی شعور مخلوق کے طور پر روشناس کروایا جائے. اس سلسلے میں خاندان سے لے کر معلمین, واعظین, اور حکومت کی سطح پر آگاہی مہم لانچ کی جائے. میڈیا پر چلنے والے ایسے پروگرامز اور اشتہارات پر پابندی عائد کی جائے جن کے ذریعے تنہا عورت کو “موقع” خیال کرنے کی سوچ کو شہہ ملتی یا مل سکنے کا خدشہ موجود ہو. یاد رہے کہ محفل میں, بھیڑ میں یا سب کے سامنے عورت اب بھی مقدس اور معزز ہے. یہاں بات تنہا اور کمزور عورت کی ہو رہی ہے.. کہ تنہا اور کمزور عورت بھی ویسی ہی مقدس اور معزز ہوتی ہے جیسی وہ گھر, محفل یا کسی ادارے میں ہوتی ہے. لوگوں کو یہ باور کروایا جائے کہ سب کے سامنے عورت کو مقدس اور تنہائی میں “موقع” سمجھنا منافقانہ طرز عمل ہے.. اور اس کا انجام نہایت بھیانک ہے.. اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں تو اسفل سافلین کا مقام طے شدہ ہے. جب تک اس نکتے کے حوالے سے معاشرے میں انفرادی و اجتماعی ہر دو سطح پر بھرپور آگہی مہم کا آغاز نہیں ہو گا اور اسے ایک لمبے عرصے تک جاری نہیں رکھا جائے گا تب تک اس مسئلے کی مستقل بیخ کنی ناممکن ہے