میرا پہلے ہی اس بات پر یقین بہت پختہ تھا کہ ہمارے اردگرد سارے جھگڑے اور فساد “سنی سنائی” پر یقین کر لینے کی وجہ سے ہیں. آج اس بات پر یقین ایمان کی صورت اختیار کر گیا وجہ اس کی, ایک تجربہ بنا.. وہ تجربہ میں نے خود اپنی نگرانی میں کنڈکٹ کیا. آپ کے ساتھ اس نیت کے ساتھ شئیر کرنے جا رہا ہوں کہ ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ کب کوئی اچھی بات یا عادت ہماری شخصیت اور مزاج کا حصہ بن جائے. آج کورونا کے بعد اپنے اداروں کی reopening پر ٹیچرز کو احتیاطی تدابیر بتانے کے حولے سے ٹریننگ منعقد ہوئی. میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح کی کسی بھی سرگرمی میں کسی نہ کسی سماجی برائی پر بات کر کے اس کی وجوہات اور ان کے تدارک کے لیے کوئی لائحہ عمل ٹیچرز کے ساتھ شئیر کیا جا سکے. کیونکہ ٹیچرز وہ لوگ ہوتے ہیں جو براہ راست معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں. چنانچہ آج میں نے بطور موضوع, گفتگو کے لیے “سنی سنائی باتوں پر بغیر تحقیق یقین کر لینے” کو چنا.. اور اسے ایک تجربے کےذریعے وہیں پر ثابت کیا کہ سنی سنائی بات کی حیثیت کیا ہوتی ہے
ایکٹویٹی کی تفصیل کچھ یوں ہے میں نے ایک ٹیچر کو کمرہ جماعت سے باہر بلایا اور انہیں ابو بن ادھم اور فرشتے کے درمیان ہونے والی گفتگو پر مبنی پوری کہانی سنائی. شاید آپ سب اس کہانی سے واقف ہوں مگر احتیاطاََ دوبارہ تحریر کیے دیتا ہوں. میں نے بتایا ابو بن ادھم ایک حکمران تھے ایک رات وہ اپنے محل کی چھت پر ٹہل رہے تھے کہ ان کی ملاقات ایک فرشتے سے ہوئی جس کے ہاتھ میں ایک فہرست تھی, انھوں نے فرشتے سے پوچھا یہ کیسی فہرست ہے تو جواب ملا, یہ نیک اور اللہ کے پسندیدہ بندوں کے ناموں کی فہرست ہے.. ابو بن ادھم نے پوچھا کیا اس میں میرا نام ہے؟ جواب ملا “نہیں… پوچھا: “میرا نام اس میں کیسے آ سکتا ہے, یعنی میں کونسا عمل کروں تو میرا نام اس فہرست میں شامل ہو جائے گا” ؟ فرشتے نے انہیں کوئی بات بتائی جس پر عمل کرنے سے وہ اس فہرست میں شامل ہو سکتے تھے.. مختصراََ یہ کہ اگلی دفعہ اس فہرست میں سرِ فہرست نام ابو بن ادھم کا تھا
یہ کہانی سنانے کے بعد میں نے ان ٹیچر سے کہا کہ آپ اب دوسرے ٹیچر کق بلا کر یہ کہانہ سنائیں.. یوں یہ کہانی میں نے دس ٹیچرز کو ایک دوسرے کو سنانے کے لیے بولا… اور جانتے ہیں آخری یعنی دسویں ٹیچر کے پاس یہ کہانی کس طرح پہنچی؟ آپ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ اتنی پوری سٹوری کو آخری ٹیچر نے یوں بیان کیا: “آج رات خواب میں ایک فرشتہ آئے گا جو اچھی بات بتائے گا” اور پھر جب میں نے پہلی ٹیچر کو وہ کہانی سنانے کے لیے بولا.. اس نے وہ سنائی تو کمرے میں “pin drop” سائلنس تھی….. اس سے کیا سمجھنا ہے, کیا سیکھنا ہے, کیا نتیجہ اخذ کرنا ہے.. یہ سب میں آپ پر چھوڑ رہا ہوں. لیکن اس کے بعد میں نے سنی سنائی بات میں جھول پیدا ہونے کی تین وجوہات بتائیں وہ آپ کی بصارتوں کی نذر کیے دیتا ہوں
اول: سنی سنائی بات کے سچ ہونے کا بہت زیادہ انحصار بات آپ تک پہنچانے والے کی ذہنی استعداد پر ہوتا ہے دوم: ہر انسان کی یادداشت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو ایک خاص عرصے کے بعد اس کی جزئیات سمیت یاد رکھ سکے سوم: بات جس کو سنائی جا رہی ہے وہ اس کو کیسے پرسیو(perceive) کرتا ہے اس کا بھی ہمیں کوئی پتہ نہیں ہوتا. یہ تینوں وہ سائنٹفک حقائق ہیں جو مختلف واسطوں سے آپ تک پہنچی ہوئی بات میں لازماََ جھول یا ردوبدل پیدا کر دیتے ہیں.. یہی وجہ ہے کہ قرآن ہمیں خبر کی تصدیق کے ساتھ ساتھ خبر لانے والے کی ذات کی جانچ پڑتال کی بھی ہدایت کرتا ہے. مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے اس بیماری نما برائی کو بڑھاوا دیا اور اب سوشل میڈیا نے اس بیماری کو اوجِ کمال تک پہنچا دیا ہے
One thought on “سنی سنائی”
آپ یقیناً بہت پختہ معاشرتی مشاہدہ رکھتے ہیں انشاء اللہ یہ فورم آپ کے تجربات سے قارئین کے لیے بہت مفید ثابت ہو گا۔ تسلسل سے لکھیں